ظفر جو گھر میں آ گئے، شرارتوں کی دھوم ہے
ذرا جو ان کو ٹوک دو تو اشک کا ہجوم ہے
ذرا جو ان کو ٹوک دو تو اشک کا ہجوم ہے
کبھی وہ جانماز کو گھسیٹ کر گرائیں گے
کبھی وہ جوتیوں سمیت اس پہ بیٹھ جائیں گے
ادھر یہ کر رہے ہیں اور فخر کا حال دیکھئے
دبا کے منھ میں دانت سے وہ جوتیاں لئے ہوئے
چلے ہیں مست مست سے کہ خوب یہ غذا ملی
ادھر ظفر کی غلطیوں پہ ان کو گر سزا ملی
تو پھر غموں کے بادلوں میں شور وہ مچائیں گے
کہ گھر کو چیخ چیخ کر وہ سر ہی پہ اٹھائیں گے
قیسی الفاروقی
دیوریا، ٣٠ نومبر ٧٥
_______________________
Qaisi AlFaruqui |