منگل، 2 اپریل، 2013

آزاد نظم : مرلی کی تان

(١)
قدم کے نیچے کھڑی محویت کے عالم میں
تھی ایک گوپی نظر اور سر جھکائے ہوئے
لجا کے اس نے کہا مجھ کو یہ بتائیں حضور
ہے راز کیا کہ ہے مرلی کی تان میں یہ سرور
یہ نغمہ کون سا نغمہ ہے جس کو سنتے ہی
ہوں جیسے سحر زدہ آدمی و خوش طیور
نشاط و کیف کے اور بیخودی کے عالم میں
سکون و کیف کی بارش فضا سے ہوتی ہے
بیان سے جس کے کہ ہم گوپیاں بھی ہیں مجبور
ہر اک تان سے اڑتے ہیں ہوش کے پردے
اک انبساط کے اور سرخوشی کے عالم میں
 
(٢)
سوال سن کے تبسم کے ساتھ فرمایا
یہ جان لے میری مرلی کی تان ازلی ہے
یہ تان ایسی ہے لے جس کی
لافانی ہے
یہ تھی کہ جب نہیں دنیا کا تھا کہیں وجود
یہ باقی ہوگی یہ دنیا نہ ہوگی جب موجود
یہ لے جو سنتی ہے آفاقیت سے ہے معمور
یہ لے جو کرتی ہے تجھ کو زماں مکاں سے دور
یہ لے نہیں ہے تیری زندگی کا ساز ہے یہ
یہ تیری روح کی گہرائیوں کی ہے آواز
یہ تیرے جسم کی رعنائیوں کی ہے آواز
کبھی وہ وقت بھی آتا ہے جب نہیں سنتے
ازل کی تان پر انسان سر نہیں دھنتے
تو اپنی مرلی لگائے لبوں سے آتا ہوں
میں پھر یہ نغمۂ ازلی انہیں سناتا ہوں

قیسی الفاروقی
جونپور، ٢٨ نومبر ٦١
__________________________

Qaisi AlFaruqui Poetry
Murli ki Taan : Azad Nazm by Qaisi AlFaruqui