جمعہ، 7 جون، 2013

نظم : وبالی پتلون

کتنی حسرت سے میں غیروں کو تکا کرتا تھا
ایک پتلون کی بس دل سے دعا کرتا تھا
شیروانی سے میں شرمندہ ہوا کرتا تھا
آرزو دل میں یہی ایک رکھا کرتا تھا
کتنے دن پہنے رہا ایک خیالی پتلون

پھر چچا جان نے پورا کیا میرا سپنا
ان سے دیکھا نہ گیا روز کا میرا تپنا
دے دیا سلک کا اک سوٹ پرانا اپنا
اس طرح بند ہوا پینٹ کا مالا جپنا
اپنے سینے سے وہیں میں نے لگا لی پتلون

جا بجا جب وہ مسکتی تھی مسک جانے دی
پیٹ سے نیچے کھسکتی تھی کھسک جانے دی
کبھی ایڑی میں جو اٹکی تو اٹک جانے دی
جسم پر اپنے کسی طرح چپک جانے دی
اس طرح پہلے پہل میں نے سنبھالی پتلون

لکھنؤ میں بھی بزرگوں کا چلن یاد رہا
ان سے کچھ دور بھی تھا اس لئے آزاد رہا
جیب بھی گرم تھی، میں اس سے بہت شاد رہا
اور فیشن تو ہمیشہ ستم ایجاد رہا
میں نے گڈفٹ کے یہاں ایک سلالی پتلون

 سگرٹیں پینے لگا چائے کا بیمار بنا
کچھ گلا اچھا تھا فلموں کا پرستار بنا
اک تخلص بھی رکھا خالق اشعار بنا
زین مکھن کی خریدی تو طرحدار بنا
اور سرما میں سلائی گئی کالی پتلون

اور خیر سے جب ہو گئی میری شادی
مجھ کو پتلون پہنے کی ملی آزادی
کوٹ پتلون پہنے کا ہوا میں عادی
مجھ پہ قربان ہوئیں بیوی کی بوڑھی دادی
کتنی مرغوب ہوئی دیکھ کے سالی پتلون


قیسی الفاروقی
پورن پور،٦ مئی ٦١
______________________________________

Wabali Patlun by Qaisi Al Faruqui