یوسفِ گم گشتہ
روشنی میری بڑھانے کے لئے آ جانا
پیرہن منه سے ہٹانے لئے مت آنا
گل محبت کے کھلانے کے لئے آ جانا
خار فرقت کے چبھانے کے لئے مت آنا
مجھ کو سینے سے لگانے کے لئے آ جانا
پھول تربت پہ چڑھانے کے لئے مت آنا
اپنی دادی کی دعاؤں کے لئے آ جانا
چھوڑ کر پھر ہمیں جانے کے لئے مت آنا
بھائیوں کو تو ہنسانے کے آ جانا
اپنی اماں کو رلانے کے لئے مت آنا
اپنی اماں کو رلانے کے لئے مت آنا
اپنی شدو کو منانے کے لئے آ جانا
اس سے آنکھوں کو چرانے کے لئے مت آنا
اس سے آنکھوں کو چرانے کے لئے مت آنا
ناز بھابھی کے اٹھانے کے لئے آ جانا
دور بچوں کو ہٹانے کے لئے مت آنا
دل کی کلیوں کو کھلانے کے لئے آ جانا
اشک دامن پر گرانے کے لئے مت آنا
میرے یوسف میرے گم گشتہ پیارے بیٹے
دل کی ٹھنڈک ہو میری آنکویں کے تارے بیٹے
چاند کے مثل بہت دور ہو گئے ہو بیٹے
پھر بھی آنکھوں کے لئے نور بنے ہو بیٹے
تم جو چمکوگے تو چمکے گا مقدر میرا
نور و نکہت میں نہا جائے گا یہ گھر میرا
اپنے بابو کو میں سینے سے لگا پاؤں گا
اپنی تارا کو کلیجے میں بیٹھا پاؤں گا
یہ نہیں جانتا پر آس لگا رکھی ہے
اب تو ہر وقت یہی دل میں دعا رکھی ہے
شادماں کامراں وہ تم کو جہاں میں رکھے
تم کو اللہ حفاظت میں اماں میں رکھے
قیسی الفاروقی
دیوریا، ١٦/ دسمبر ١٩٧٨ء
A Poem by Qaisi Al Faruqui |
Find Qaisi Al Faruqui on Facebook.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں