جمعہ، 21 اکتوبر، 2011

غزل : سرکشی بندۂ خدا ہوکر || رہ گیا ہے کیا ہوکر

سرکشی بندۂ خدا ہوکر
آدمی رہ گیا ہے کیا ہوکر

دل کو آئینِ خود فراموشی
تم نے سکھلا دیا ہے خفا ہوکر

زندگی لطف سے گزرتی ہے
لذّتِ غم سے آشنا ہوکر

مرحبا، مرحبا، نگاہِ ناز
درد اٹھنے لگا دوا ہوکر

رندِ معصوم پر ہزار شکوک
پارساؤں کو پارسا ہوکر

ناوک ناز دل میں اے قیسی
رہ گیا جانِ مدعا ہوکر
 ______________
گونڈہ. جنوری 1959ء
____________________________

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں