منگل، 12 جون، 2012

غزل : جہاں نہ کچھ بنا سکیں خرد کی ساری حکمتیں

جہاں نہ کچھ بنا سکیں خرد کی ساری حکمتیں
وہاں پہ کام آ گئیں خرد کی چند وحشتیں

کبھی نہ کر سکا کوئی بشر کی پست ہمتیں
نہ پستیاں زمین کی نہ آسماں کی رفعتیں

نہ کاوشیں نہ خواہشیں نہ جستجو نہ حسرتیں
کسی کی واسطہ چھٹے گذر چکی ہیں مدتیں

قیامتیں ہوں حسن کی کہ عشق کی سیاستیں
کوئی بھی نام دیجئے ہیں دل کی سب حکایتیں

بشر کے کشت و خون سے زمین لالہ زار ہے
انھیں یہ دھن کہ جیت لیں فلک کی ساری رفعتیں

ان اہل ِ عقل پر اگر نہ روۓ قیسیٌ کیا کرے
نظر میں جن کے آج ہیں فقط خلا کی وسعتیں
_________
پورن پور. اپریل 1961ء
___________________ 
Click to Enlarge
Mohammad Shamsul Huda Qaisi AlFaruqui Poetry

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں