لب پہ میرے درود و سلام آ گیا
جب زباں پہ محمد کا نام آ گیا
آپ تشریف لائے مدینے میں جب
لوگ کہتے تھے ماہ تمام آ گیا
مجھ کو راہوں میں پلکیں بچھانے تو دو
اے مدینے کی گلیوں غلام آ گیا
جان اپنی مدینہ پہ دوں تو کہوں
جذب کامل مرا کچھ تو کام آ گیا
چاہتا ہوں میں آقا کرم کی نظر
فکر و شبہات کا ازدحام آ گیا
اس کو رہتی ہے کب ماسوا کی خبر
جس کے ہاتھوں میں وحدت کا جام آ گیا
جلوہ گاہ رسالت ہے پیش نظر
سر بہ سجدہ ہے دل وہ مقام آ گیا
روضۂ پاک سر چشمۂ فیض ہے
تشنہ لب جو گیا شادکام آ گیا
حیف قیسی زیارت سے محروم ہے
دور منزل ہے اور وقت شام آ گیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں