آہوں کو اپنی دکھوں کہ دیکھوں اثر کو میں
دامن بھروں گلوں سے کہ تھاموں جگر کو میں
یہ اضطرابِ شوق ہے یا بخت نارسا
منزل پہ پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر سے میں
آجاؤ بھی کہ کھلنے کو ہے رازِ زندگی
یہ ہچکیاں جرس ہیں چلا ہوں سفر کو میں
اک سوزِ جاوداں ہوں جہانِ خراب میں
آیا نہیں ہوں جلنے فقط رات بھر کو میں
باقی ہے اگر آن تو کیوں فکرِ جاں کروں
اک مشتِ خاک لوں نہ لٹا کر گہر کو میں
پُر پیچ ہیں حیات کی راہیں تو کیا ہوا
قیسی دکھاؤں راہ ابھی راہبر کو میں
_____________________
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں