بدھ، 18 اپریل، 2012

غزل : اس شوخ سے ہے دل کو امید کرم ابھی

اس شوخ سے ہے دل کو امید کرم ابھی
سمجھے نہیں فریبِ تمنا کو ہم ابھی

اک سعئی رائگاں ہے یہ ضبطِ الم ابھی
آنکھیں تو خشک ہو گئیں دامن ہے نم ابھی

محتاج و مستعار ہے گل کی شگفتگی
کیا جانتے ہیں گریۂ شبنم کو ہم ابھی

پیر ِ مغاں نہ روک نگاہوں کا فیض ِ عام
ہونا ہر ایک جام کو ہے جام ِ جم ابھی

اہل ِ خرد کو کھو بھی چکے اعتبار ِ عشق
باقی ہے کچھ تو اہل ِ جنوں کا بھرم ابھی

اک سوگوار ِ زیست کو جینے کی آرزو
شاید ہے تشنہ لب مرا ذوق ِ الم ابھی

کچھ اور چاہئے ستم التفات دوست
قیسی غم ِ حیات کی تلخی ہے کم ابھی
_________
رسڑا. جولائی 1952ء
_________________

Shamsul Huda Qaisi Faruqui
 

منگل، 3 اپریل، 2012

کشش عصیاں کی اور اپنی بھی نادانی نہیں جاتی

کشش عصیاں کی اور اپنی بھی نادانی نہیں جاتی
کسی صورت سے بھی یہ خوۓ انسانی نہیں جاتی

وہی ہم تھے کہ فرقِ پاک پر تھا نورِ سبحانی
وہی ہم ہیں کہ اب صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

ہجومِ یاس و حرماں بھی ہے لاکھوں حسرتیں بھی ہیں
مگر پھر بھی ہمارے دل کی ویرانی نہیں جاتی
_________
مودها، ہمیرپور. جولائی 1953ء
________________

Qaisi AlFaruqui