کشش عصیاں کی اور اپنی بھی نادانی نہیں جاتی
کسی صورت سے بھی یہ خوۓ انسانی نہیں جاتی
وہی ہم تھے کہ فرقِ پاک پر تھا نورِ سبحانی
وہی ہم ہیں کہ اب صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
ہجومِ یاس و حرماں بھی ہے لاکھوں حسرتیں بھی ہیں
مگر پھر بھی ہمارے دل کی ویرانی نہیں جاتی
_________
مودها،
ہمیرپور. جولائی 1953ء
________________
Qaisi AlFaruqui |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں