اس شوخ سے ہے
دل کو امید کرم ابھی
سمجھے نہیں
فریبِ تمنا کو ہم ابھی
اک سعئی
رائگاں ہے یہ ضبطِ الم ابھی
آنکھیں تو
خشک ہو گئیں دامن ہے نم ابھی
محتاج و
مستعار ہے گل کی شگفتگی
کیا جانتے
ہیں گریۂ شبنم کو ہم ابھی
پیر ِ مغاں
نہ روک نگاہوں کا فیض ِ عام
ہونا ہر ایک
جام کو ہے جام ِ جم ابھی
اہل ِ خرد کو
کھو بھی چکے اعتبار ِ عشق
باقی ہے کچھ
تو اہل ِ جنوں کا بھرم ابھی
اک سوگوار ِ
زیست کو جینے کی آرزو
شاید ہے تشنہ
لب مرا ذوق ِ الم ابھی
کچھ اور چاہئے
ستم التفات دوست
قیسی غم ِ
حیات کی تلخی ہے کم ابھی
_________
رسڑا. جولائی
1952ء
_________________
Shamsul Huda Qaisi Faruqui |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں