خلوص عشق کی
جب دل میں روشنی نہ رہی
تو کیا گلہ
ہے کہ پرکیف زندگی نہ رہی
اب التفات کے
قابل یہ زندگی نہ رہی
کہ آدمی تو
رہے قدر آدمی نہ رہی
سزا جزا کی
قائل ہو وہ عبادت تو
خطا معاف
تجارت ہے بندگی نہ رہی
فسردہ گل ہیں
تو غنچے بھی مضمحل سے ہیں
چمن رہا بھی
تو کیا جب وہ دلکشی نہ رہی
سنائیے غم ِ
دوراں کے نو بہ نو قصے
فسانۂ غم ِ
جاناں میں دلکشی نہ رہی
دل فسردہ کچھ
اس طرح سے مٹا قیسیٌ
کہ غم بھی غم
نہ رہا اور خوشی خوشی نہ رہی
_________
مودها. جنوری 1955ء
______________
Qaisi Al Faruqui Poetry |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں