ہفتہ، 17 مارچ، 2012

غزل : پیش ِ نگاہ جیسے ترا آستاں رہے

پیش ِ نگاہ جیسے ترا آستاں رہے
اس کی نظر میں پست نہ کیوں آسماں رہے

ہم یوں رہین ِ منتِ برق ِ تپاں رہے
گرتی ہے گھوم پھر کے نشیمن جہاں رہے

زیر زمیں ہے چین نہ زیر فلک سکوں
مجھ کو کوئی بتاۓ کہ کوئی کہاں رہے

بھڑکا دی آگ اور بھی گلہاۓ سرخ نے
گلشن میں بھی رہے تو ہم آتش بجاں رہے

اب وہ غرور ناز نہ خودداری ِ نیاز
پردے وہ اٹھ گئے جو کبھی درمیاں رہے

آنکھوں نے اس طرح سے اڑائی ہے دل کی بات
جیسے کوئی کسی کا بڑا رازداں رہے

مجھ سے رخ ِ حبیب کی سنجیدگی نہ پوچھ
وہ مہرباں ہوئے بھی تو ہم بدگماں رہے

جوہر کی قدر تھی کبھی تھے حق شناس لوگ
حالات اب وہ دہر کے قیسیٌ کہاں رہے
_________
رسرا. مئی 1952ء
______________
Qaisi Faruqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں