ہفتہ، 10 مارچ، 2012

غزل : ترک الفت تو ہو نہیں سکتی

ترک الفت تو ہو نہیں سکتی
یہ قیامت تو ہو نہیں سکتی

ان سے قربت تو ہو نہیں سکتی
ایسی قسمت تو ہو نہیں سکتی

تشنگی خون سے بجھا لینا
آدمیت تو ہو نہیں سکتی

گر متاع ِ جہاں بھی کوئی دے
دل کی قیمت تو ہو نہیں سکتی

ان کو حق ہے کرم کریں کہ ستم
کچھ شکایت تو ہو نہیں سکتی

تیرے رنگیں تصورات بغیر
دل کی زینت تو ہو نہیں سکتی

پائیں ہم عشق و موت پر قابو
ایسی قدرت تو ہو نہیں سکتی

اہل ِ دنیا کے روبرو قیسیٌ
ہم سے منت تو ہو نہیں سکتی
 _________
دیوریا. جون 1948ء
____________________

Ghazal by Qaisi AlFaruqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں