جمعرات، 31 مئی، 2012

غزل : تھا جو ازل ہی سے مکتوب

تھا جو ازل ہی سے مکتوب
ہم سے ہوا ہے سب منسوب

جوش ِ جنوں میں ہوش ہے کب
کون ہے طالب کیا مطلوب

فکر ِ معاش و عشق ِ بتاں
شغل یہی دو ہیں محبوب

ان کی توجہ ان کا کرم ہے
میں جو ہوا ہوں یوں محتوب

کرکے مسخر مہر و ماہ
بھول گیا تسخیر قلوب

عظمتِ انساں بڑھتی جائے
دیکھ سکے گر اپنے عیوب

قیسیٌ طالب ہے یا رب
رکھ مجھ کو غیرالمغضوب
_________
پورن پور. جون 1960ء
___________________
 
Azal by Qaisi AlFaruqui
 

اتوار، 13 مئی، 2012

غزل : جب کلی کوئی مسکرائی ہے

جب کلی کوئی مسکرائی ہے
آنکھ بے ساختہ بھر آئی ہے

ہم ہیں انسان کیوں خطا نہ کریں
جدِّ اعلٰی سے خو یہ پائی ہے

کتنے غنچوں کے دل ہوئے ہیں خوں
جب چمن میں بہار آئی ہے

دور حاضر کے دور رس انساں
تونے دنیا نئی بسائی ہے

بستیاں آج بھی اندھیری ہیں
چاند تک گو تری رسائی ہے

اس ترقی کے دور میں قیسیٌ
مردنی کیوں دلوں پہ چھائی ہے
_________
پورن پور. نومبر 1959ء
________________

Kalaam e Qaisi Al Faruqui

منگل، 1 مئی، 2012

غزل : خلوص عشق کی جب دل میں روشنی نہ رہی

خلوص عشق کی جب دل میں روشنی نہ رہی
تو کیا گلہ ہے کہ پرکیف زندگی نہ رہی

اب التفات کے قابل یہ زندگی نہ رہی
کہ آدمی تو رہے قدر آدمی نہ رہی

سزا جزا کی قائل ہو وہ عبادت تو
خطا معاف تجارت ہے بندگی نہ رہی

فسردہ گل ہیں تو غنچے بھی مضمحل سے ہیں
چمن رہا بھی تو کیا جب وہ دلکشی نہ رہی

سنائیے غم ِ دوراں کے نو بہ نو قصے
فسانۂ غم ِ جاناں میں دلکشی نہ رہی

دل فسردہ کچھ اس طرح سے مٹا قیسیٌ
کہ غم بھی غم نہ رہا اور خوشی خوشی نہ رہی
_________
مودها. جنوری 1955ء
______________
 
Qaisi Al Faruqui Poetry