جمعہ، 21 ستمبر، 2012

غزل : نامرادی ہے اب تو عینِ حیات

نامرادی ہے اب تو عینِ حیات
کیوں اٹھائیں کسی کے احسانات

روح تن سے جدا ہوئی لیکن
زندگی سے کسے ملے ہے نجات

دام اپنا سمیٹ لے صیاد
پاؤں پکڑے ہوئے ہیں خود حالات

کم نہیں یہ بھی فیضِ موسمِ گل
جیب و دامن سے مل گئی ہے نجات

خیر گزری کھ بچ گیا دامن
آکے آنکھوں میں رک گئی برسات

زندگی تاب و تپش کے دن
موت تاروں بھری حسیں اک رات

ہوں اسیرِ بلا مگر قیسیٌ
کیا رہائی ہے اپنے بس کی بات
_________
پورن پور. مئی 1961ء
____________________

Qaisi AlFaruqui
A Ghazal by Qaisi AlFaruqui
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں