پیر، 1 اکتوبر، 2012

غزل : بجا کہ اپنے زمانے کا ہے وہی منصور

بجا کہ اپنے زمانے کا ہے وہی منصور
نگاہِ عشق نے بخشا جسے دماغِ غیور

جو ہاتھ آئے تو کیوں کر متاعِ کیف و سرور
کہ زندگی ہے ابھی سوزوسازِعشق سے دور

نہ کر حیاتِ دو روزہ پہ ناز اے مجبور
کہ راہ دیکھ رہی ہیں قدم قدم پہ قبور

نہ رنج آبلہ پائی نہ آرزوئے سکوں
ہے رہروانِ رہِ عشق کا یہی دستور

جبینِ شوق کو سجدوں کا کیف کافی ہے
یہ بندگی نہیں میری براۓ حور و قصور

چلو ہٹو بھی مسرت کا مجھ سے نام نہ لو
کہ پا رہا ہوں مصائب کی زندگی میں سرور

ہماری آبلہ پائی سے ہٹ سکے جو نظر
تو دیکھ دیدہ و دل پر برس رہا ہے جو نور

روش روش پہ چمن میں ہزار خار سہی
سنبھل کے آپ نہ چلئے تو آپ ہی کا قصور

نہ پوچھ حال غریب الوطن کا اے ہمدم
چمن سے دور عزیزوں کی انجمن سے دور

مرے لئے وہی حاصل ہیں دین و دنیا کی
وہ ساعتیں جو گزاری ہیں میں نے تیرے حضور

گزر رہے ہیں شب و روز اس طرح قیسیٌ
نہ زندگی کا سلیقہ نہ عاقبت کا شعور
_________
مین پوری. اپریل 1968ء
______________________

A Ghazal by Qaisi AlFaruqui
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں