غزل
جسے دل سمجھتا ہے بے خبر نہیں کچھ بھی اس میں جو غم نہیں
یوں ہی بے حسی میں گزر گئی تو حیات بھی موت سے کم نہیں
یوں ہی بے حسی میں گزر گئی تو حیات بھی موت سے کم نہیں
میری عمر بھر کی مسرتیں انہیں چار تنکوں پہ تھیں مگر
جو چمن بچا ہے تو باغباں مجھے آشیاں کا بھی غم نہیں
جو چمن بچا ہے تو باغباں مجھے آشیاں کا بھی غم نہیں
ہیں عبث یہ تیری شکایتیں یہی بیش و کم کی حکایتیں
تجھے خود ہی پاسِ خودی نہیں ترے دل میں اپنا بھرم نہیں
تجھے خود ہی پاسِ خودی نہیں ترے دل میں اپنا بھرم نہیں
نہ مسرتوں کا خیال ہے نہ مصیبتوں کا ملال ہے
تری ہر خوشی ہے مری خوشی یہی اک خوشی مجھے کم نہیں
تری ہر خوشی ہے مری خوشی یہی اک خوشی مجھے کم نہیں
وہی تیرا قیسی مبتلا، ترے در پہ تھا جو پڑا ہوا
نہ ہوا ہو مشق غریب پر کوئی ایسا طرزِ ستم نہیں
نہ ہوا ہو مشق غریب پر کوئی ایسا طرزِ ستم نہیں
قیسی الفاروقی
Qaisi AlFaruqui :: Ghazal : Jise Dil Samajhta Hai Be-khabar |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں