منگل، 29 نومبر، 2011

غزل : چند روزہ حیات ہوتی ہے

چند روزہ حیات ہوتی ہے
زندگی بے ثبات ہوتی ہے

جو نگاہوں میں بات ہوتی ہے
عشق کی کائنات ہوتی ہے

جلتے رہتے ہیں آنسوؤں کے دیے
ہجر کی ایسی رات ہوتی ہے

جب تعصب جنون بنتا ہے
دوپہر کو بھی رات ہوتی ہے

عشق کی یہ بساط ہے قیسی
اک اشارے میں مات ہوتی ہے
_________
فیض آباد. جولائی 1969ء
________________________________

 

جمعہ، 25 نومبر، 2011

غزل : جو وقت آیا تو خوں بھی بہا دیا ہم نے

جو وقت آیا تو خوں بھی بہا دیا ہم نے
وطن کی راہ میں یوں گل کھلا دیا ہم نے

یہ زندگی نہیں غفلت کا ایک پردہ ہے
اٹھے جو دنیا سے پردہ اٹھا دیا ہم نے

غریب بھی کبھی عزت مآب ہوتا ہے
یہ کم نہیں ہے کہ یہ بھی دکھا دیا ہم نے

جو پوچھا اس نے سرمایہٴ حیات ہے کیا
تو داغدار جو دل تھا دکھا دیا ہم نے

بجا کہ جیب و دامن ہیں تار تار مگر
روش روش تو چمن کو سجا دیا ہم نے

جو ہاتھ آئ کبھی ہم کو ہاتھ پھیلا کر
وہ آرزو وہ تمنا مٹا دیا ہم نے

ہجوم غم سے ہوئے ہمکنار جب بھی ہم
تو مسکرا کر شگوفہ کھلا دیا ہم نے

سوال تھا کہ یہ پیری کہاں بسر ہوگی
جواب گورِ غریباں بتا دیا ہم نے

کہا کسی نے کہ قیسی کا ہاتھ خالی ہے

وہیں پہ آنکھ سے موتی گرا دیا ہم نے

___________
دیوریا. 15 اگست 1975ء
_____________________________________



پیر، 21 نومبر، 2011

غزل : بیکسی بن گئی معینِ حیات

بیکسی بن گئی معینِ حیات
کیوں اٹھائیں کسی کے احسانات

روح تن سے جدا ہوئی لیکن
زندگی سے کہاں ملی ہے نجات

دام اپنا سمیٹ لے صیاد
پاؤں پکڑے ہوئے ہیں خود حالات

ہم کو راس آ گئی بہارِ چمن
جیب ودامن سے مل گئی ہے نجات

ہم نے دامن بچا لیا اپنا
آکے آنکھوں میں رک گئی برسات

زندگی تاب و تپش کا دن
موت تاروں بھری حسین اک رات

پابہ زنجیر ہیں وہی قیسی
جن کو رہتا ہے پاسِ ممنوعات



بدھ، 16 نومبر، 2011

غزل : جسے دل سمجھتا ہے بے خبر نہیں کچھ بھی اس میں جو غم نہیں

جسے دل سمجھتا ہے بے خبر نہیں کچھ بھی اس میں جو غم نہیں
یوں ہی بے حسی میں گزر گئی تو حیات بھی موت سے کم نہیں

میری عمر بھر کی مسرتیں انہیں چار تنکوں پہ تھیں مگر
جو چمن بچا ہے تو باغباں مجھے آشیاں کا بھی غم نہیں

میں بغیر منتِ راہبر ہوں بلند و پست سے باخبر
مرا ذوق خود مرا رہنما، میں اسیرِ نقشِ قدم نہیں

ہیں عبث یہ تیری شکایتیں یہی بیش و کم کی حکایتیں
تجھے خود ہی پاسِ خودی نہیں ترے دل میں اپنا بھرم نہیں

ہے قسم مزاق سجود کی کہ نگاہِ شوق و شعور میں
وہ جبیں ہے ننگِ جبیں ابھی جو کسی آستاں پہ خم نہیں

نہ مسرتوں کا خیال ہے نہ مصیبتوں کا ملال ہے
تری ہر خوشی ہے مری خوشی یہی اک خوشی مجھے کم نہیں

وہی تیرا قیسی مبتلا، ترے در پہ تھا جو پڑا ہوا
نہ ہوا ہو مشق غریب پر کوئی ایسا طرزِ ستم نہیں