جو وقت آیا
تو خوں بھی بہا دیا ہم نے
وطن کی راہ
میں یوں گل کھلا دیا ہم نے
یہ زندگی نہیں
غفلت کا ایک پردہ ہے
اٹھے جو دنیا
سے پردہ اٹھا دیا ہم نے
غریب بھی
کبھی عزت مآب ہوتا ہے
یہ کم نہیں
ہے کہ یہ بھی دکھا دیا ہم نے
جو پوچھا اس
نے سرمایہٴ حیات ہے کیا
تو داغدار جو
دل تھا دکھا دیا ہم نے
بجا کہ جیب و
دامن ہیں تار تار مگر
روش روش تو
چمن کو سجا دیا ہم نے
جو ہاتھ آئ
کبھی ہم کو ہاتھ پھیلا کر
وہ آرزو وہ
تمنا مٹا دیا ہم نے
ہجوم غم سے
ہوئے ہمکنار جب بھی ہم
تو مسکرا کر
شگوفہ کھلا دیا ہم نے
سوال تھا کہ
یہ پیری کہاں بسر ہوگی
جواب گورِ
غریباں بتا دیا ہم نے
کہا کسی نے
کہ قیسی کا ہاتھ خالی ہے
وہیں پہ آنکھ سے موتی گرا دیا ہم نے
___________
دیوریا.
15 اگست 1975ء
_____________________________________
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں