منگل، 29 نومبر، 2011

غزل : چند روزہ حیات ہوتی ہے

چند روزہ حیات ہوتی ہے
زندگی بے ثبات ہوتی ہے

جو نگاہوں میں بات ہوتی ہے
عشق کی کائنات ہوتی ہے

جلتے رہتے ہیں آنسوؤں کے دیے
ہجر کی ایسی رات ہوتی ہے

جب تعصب جنون بنتا ہے
دوپہر کو بھی رات ہوتی ہے

عشق کی یہ بساط ہے قیسی
اک اشارے میں مات ہوتی ہے
_________
فیض آباد. جولائی 1969ء
________________________________

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں