چند روزہ
حیات ہوتی ہے
زندگی بے
ثبات ہوتی ہے
جو نگاہوں
میں بات ہوتی ہے
عشق کی
کائنات ہوتی ہے
جلتے رہتے
ہیں آنسوؤں کے دیے
ہجر کی ایسی
رات ہوتی ہے
جب تعصب جنون
بنتا ہے
دوپہر کو بھی
رات ہوتی ہے
عشق کی یہ
بساط ہے قیسی
اک اشارے میں
مات ہوتی ہے
_________
فیض
آباد. جولائی 1969ء
________________________________
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں