تیرا دیوانہ
جدھر سے بھی گزار جاۓ ہے
پھول تو پھول
کانٹا بھی سنور جاۓ ہے
صاف کلیوں کا
اشارہ ہے کہ لب بند رہیں
پھول کھلتا
ہے تو شیرازہ بکھر جاۓ ہے
مجھ کو محسوس
یہ ہوتا ہے تیری یاد کے ساتھ
قافلہ جیسے
بیاباں سے گزر جاۓ ہے
غم کے ماروں
کو کہاں اس کی خبر ہوتی ہے
شام کب آئے
ہے کس وقت سحر جاۓ ہے
ایک پتنگے کو
بھی احساس ہے خودداری کا
بے رخی شمع
کی دیکھے ہے تو مر جاۓ ہے
جانے کس منھ
سے کدورت کے سیہ داغ لئے
ماہ و انجم
کی فضاؤں میں بشر جاۓ ہے
برق گرتی ہے
نشیمن کی مجھے فکر نہیں
ہاں مگر سبزہ
و غنچہ پہ نظر جاۓ ہے
یوں خطاکار
زمانے میں بہت ہیں قیسی
سارا الزام
مگر میرے ہی سر جاۓ ہے
____________
فیض
آباد. جون 1970ء
________________________
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں