وہ غم پہ مرے
جب ہنستے ہیں مجھ کو یہ تسلی ہوتی ہے
گلشن کا بھی
ہے دستور یہی گل ہنستے ہیں شبنم روتی ہے
سرمایۂ یادِ
عہدِ حسیں تفسیرِ دلِ برباد و حزیں
لے لو اسے
دامن میں اپنے یہ اشک نہیں ہیں موتی ہیں
ہے شیخ و
برہمن سے شاید یہ راز ابھی تک پوشیدہ
وہ جس سے
نفرت کرتے ہیں مخلوق خدا کی ہوتی ہے
وہ ہم سے خفا
جب ہوتے ہیں یاد آتے ہیں بے حد ان کے کرم
غم یاد نہیں
رہتے لیکن جب ان کی عنایت ہوتی ہے
جو عہدِ وفا
کے لیتے ہیں تنبیہہ یہ ان کو دے قیسی
تاکید وفا کی کرنے سے تلقین ریا کی ہوتی ہے
_____________
گونڈہ، دسمبر 1957ء
________________________
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں