وہ لذتِ غم
کو کیا جانے جو واقفِ صد آلام نہیں
سہ جاۓ
تھپیڑے ہنس ہنس کر ہر ایک کے بس کا کام نہیں
لٹتا ہے
نشیمن لٹنے دے اس قید مکاں سے چھٹنے دے
دو تنکوں کی
خاطر اے ہمدم تسکین نہیں آرام نہیں
گردش میں
مسلسل جام بھی ہے مطرب بھی مئے گلفام بھی ہے
کیا بات ہے
بزمِ ساقی میں پہلا سا ہجومِ عام نہیں
ہم تشنہ لبانِ
خاک بسر زینت ہیں ترے میخانے کی
بیٹھے ہیں تو
بیٹھا رہنے دے ہر چند صلائے عام نہیں
توقیر زمانے
میں اپنی قیسی نہ سہی تحقیر تو ہے
ناکام سہی
بدنام سہی کیا کم ہے کہ اب گمنام نہیں
_______________
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں