میں یہ کہتا
ہوں کہ ہر شیریں دہن سے ڈریئے
کون کہتا ہے
کہ فقط سانپ کے پھن سے ڈریئے
جستجو عیش کی
کرتا ہو تو تن سے ڈریئے
اپنے مالک کو
بھلاتا ہو تو من سے ڈریئے
ان کو
ہنگاموں پہ رونق کا گماں ہوتا ہے
اجنبی دیس
میں خود اہلِ وطن سے ڈریئے
دین کا فائدہ
جس میں نہ نفع دنیا کا
جو کوئی کام
نہ دے ایسی زہن سے ڈریئے
کن بلاؤں میں
پھنسا دے ہمیں معلوم نہیں
جو غریبوں کے
نہ کام آئے تو دھن سے ڈریئے
رنگ ہی رنگ
ہے نکہت کا نہیں نام و نشاں
خار تو خار
ہیں گلہاۓ چمن سے ڈریئے
چاہِ یوسف سے
نکلنے کی تو امید بھی ہے
جس کو کچھ
تھاہ نہیں چاہِ ذقن سے ڈریئے
ہجر کی رات
ہے بے چینی و بے کیفی ہے
نوک ہے خار
کی بستر کے شکن سے ڈریئے
جو ہے گردش میں
شب و روز ہمارے سر پر
جس کا سایہ
ہے اسی چرخِ کہن سے ڈریئے
عافیت اس میں
ہے، بے نام و نشاں ہی رہئے
قیسی خاک نشیں، گور و کفن سے ڈریئے
____________
دیوریا.
23 دسمبر 1978ء
__________________________
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں