جمعرات، 15 دسمبر، 2011

غزل : تھا جو ازل ہی سے مکتوب

تھا جو ازل ہی سے مکتوب
ہم سے ہوا ہے کیوں منسوب

کر کے مسخر مہر و ماہ
بھول گئے تسخیرِ قلوب

عظمتِ انساں بڑھتی جائے
دیکھ سکے گر اپنے عیوب

جوشِ جنوں میں ہوش کسے ہے
کون ہے طالب کیا مطلوب

کچھ غمِ جاناں اک غمِ دوراں
شغل یہی دو ہیں محبوب

ان کی توجہ ان کا کرم ہے
میں جو ہوا ہوں یوں معتوب

قیسی طالب ہے یہ خدا سے
مجھ کو رکھے غیرالمغضوب
___________

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں