جو بہ فیضِ
جگر* نہیں ہوتی
وہ غزل معتبر
نہیں ہوتی
زندگی یوں
بسرنہیں ہوتی
نعمتِ غم اگر
نہیں ہوتی
حسن کی قدر
عشق کی معراج
منحصر دار پر
نہیں ہوتی
اس کے سوزِ
دروں کا حال نہ پوچھ
آنکھ بھی جس
کی تر نہیں ہوتی
اب کہاں وہ
غرورِ ناکامی
آہ بھی بے
اثر نہیں ہوتی
ہر نفس ہے
پیامِ جہد و عمل
زندگی مختصر
نہیں ہوتی
خوفِ عقبٰی
سے ترک ہے واعظ
چاہئے تو مگر
نہیں ہوتی
وہی ہوتے ہیں
باخبر قیسی
جن کو اپنی
خبر نہیں ہوتی
* حضرت جگر مرادآبادی
____________
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں