دلِ حزیں گر
ذرا بھی تجھ کو ہے پاس کچھ اپنی آبرو کا
کمال یہ ہے
کہ دل میں ہو کر نہ لب پہ ہو حرف آرزو کا
جہاں بھی
بیٹھا خیال تیرا جہاں بھی دیکھا جمال تیرا
جہاں بھی
ڈھونڈا تجھی کو پایا یہ حسن ہے اپنی جستجو کا
جو اس میں
طوفاں موجزن ہے ڈبو کے رکھ دیگا ساری دنیا
نہ چھیڑے
دنیا ہمارے دل کو سمجھ کے قطرہ کہیں لہو کا
اُدھر ہو مُہرِ
سکوت ان پر ادھر بنے دل کا کیف قیسیٌ
کبھی جو
لمحاتِ بیخودی میں ہو سلسلہ ان سے گفتگو کا
_________
کوریاپار.
مئی 1939ء
__________________
Qaisi Al Faruqui |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں