یہ انقلاب
عجب کیا جو ایک بار آئے
کہ دل کے
اجڑے ہوئے باغ میں بہار آئے
ہمارے دل ہی
میں موجود تھا نہ سمجھے ہم
تمام دیر و
حرم جسے پکار آئے
اٹھا کے
پھینک دو جام و صراحی و مینا
میں چاہتا
ہوں مجھے بے پئے خمار آئے
وفا کا نام
یقیناً ڈبو دیا اس نے
جو جاکے کوچہ
سے اس کے ذلیل و خوار آئے
وفا پرستی کا
دعویٰ بجا سہی قیسیٌ
مگر یہ شرط
ہے اس کو بھی اعتبار آئے
_________
دیوریا.
نومبر 1947ء
_______________
Qaisi AlFaruqui |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں