جمعرات، 23 فروری، 2012

غزل : یہ انقلاب عجب کیا جو ایک بار آئے

یہ انقلاب عجب کیا جو ایک بار آئے
کہ دل کے اجڑے ہوئے باغ میں بہار آئے

ہمارے دل ہی میں موجود تھا نہ سمجھے ہم
تمام دیر و حرم جسے پکار آئے

اٹھا کے پھینک دو جام و صراحی و مینا
میں چاہتا ہوں مجھے بے پئے خمار آئے

وفا کا نام یقیناً ڈبو دیا اس نے
جو جاکے کوچہ سے اس کے ذلیل و خوار آئے

وفا پرستی کا دعویٰ بجا سہی قیسیٌ
مگر یہ شرط ہے اس کو بھی اعتبار آئے
_________
دیوریا. نومبر 1947ء
_______________


Qaisi AlFaruqui
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں