منگل، 28 فروری، 2012

غزل : وہ حادثاتِ زمانہ کی تاب لا نہ سکا

وہ حادثاتِ زمانہ کی تاب لا نہ سکا
خوشی و غم میں برابر جو مسکرا نہ سکا

زمانہ پیس کے رکھ دے گا ایک پل میں اسے
غم و الم کا گراں بار جو اٹھا نہ سکا

ہے جسم زیر زمیں روح مائل پرواز
یہ آسماں کبھی نیچا مجھے دکھا نہ سکا

بجز تحیر و وحشت کے کچھ نہ ہاتھ آیا
میں دور جا نہ سکا اور پاس آ نہ سکا

زمانہ تیری محبت کا ہو گیا قائل
بس ایک تمھیں کو میں اپنا کبھی بنا نہ سکا

وہ پوچھتے تھے محبت ہے کیا بلا قیسیٌ
زباں پہ آ کے رکی بات میں بتا نہ سکا
_________
دیوریا. جون 1948ء
____________________
 
Ghazal by Qaisi AlFaruqui
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں