وہ حادثاتِ
زمانہ کی تاب لا نہ سکا
خوشی و غم
میں برابر جو مسکرا نہ سکا
زمانہ پیس کے
رکھ دے گا ایک پل میں اسے
غم و الم کا
گراں بار جو اٹھا نہ سکا
ہے جسم زیر
زمیں روح مائل پرواز
یہ آسماں
کبھی نیچا مجھے دکھا نہ سکا
بجز تحیر و
وحشت کے کچھ نہ ہاتھ آیا
میں دور جا
نہ سکا اور پاس آ نہ سکا
زمانہ تیری
محبت کا ہو گیا قائل
بس ایک تمھیں
کو میں اپنا کبھی بنا نہ سکا
وہ پوچھتے
تھے محبت ہے کیا بلا قیسیٌ
زباں پہ آ کے
رکی بات میں بتا نہ سکا
_________
دیوریا. جون
1948ء
____________________
Ghazal by Qaisi AlFaruqui |