منگل، 24 جنوری، 2012

غزل : شکوہ ہے کچھ فلک سے مجھ کو نہ کچھ زمیں سے

شکوہ ہے کچھ فلک سے مجھ کو نہ کچھ زمیں سے
تم سے اک شکایت کہنی ہے وہ تمھیں سے

نظروں نے تم کو دیکھا اس کی سزا انھیں دو
کیوں لے رہے ہو بدلہ میرے دل ِ حزیں سے

شل پاؤں ہو چکے ہیں دم ٹوٹنے لگا ہے
اے جان ِ جستجو اب آواز دے کہیں سے

نغموں سے غم کے پر ہے قیسیٌ کا ساز ِ ہستی
گونج اٹھیں گی فضائیں چھیڑا اگر کہیں سے
____________
لکھنؤ، اکتوبر 1938ء
_________________
Qaisi AlFaruqui

جمعہ، 20 جنوری، 2012

غزل : منتظر ہوں آیئے جلوے پریشاں کیجئے

منتظر ہوں آیئے جلوے پریشاں کیجئے
طور کے قصے کو دہرانے کا ساماں کیجئے

ہاں مری جانب نگاہِ فتنہ ساماں کیجئے
لیجئے شیرازۂ ہستی پریشاں کیجئے

خشک زخموں پر نمک پاشی کا ساماں کیجئے
آیئے دل کے بیاباں کو گلستاں کیجئے

پونچھئے آنسو علاج ِ چشم ِ گریاں کیجئے
قیمتی گوہر ہیں ان کو زیبِ داماں کیجئے

ہو سکے تو آپ یہ قیسیٌ پہ احساں کیجئے
اس کا غم حد سے بڑھا کر غم کا درماں کیجئے
___________
کوریاپار، جون 1936ء
____________________
 
Qaisi AlFaruqui

پیر، 16 جنوری، 2012

غزل : 'ربِّ اَرنی' پر کیا انکار کیوں

'ربِّ اَرنی' پر کیا انکار کیوں
'لن ترانی' اور پھر اظہار کیوں

حسن ہو کر عشق پر اصرار کیوں
تم بنے میرے لئے بیمار کیوں

چشم ساقی کا ہے جب تک سامنا
توبہ کرنے کا کروں اقرار کیوں

کی بھی تھی توبہ تو اب باقی کہاں
چشم ساقی مجھ سے ہے بیزار کیوں

اشرف المخلوق ہے با ایں ہمہ
اس قدر انسان سے لاچار کیوں

آنکھ ہی سے جب عیاں تھا راز دل
پھر زباں نے کر دیا اظہار کیوں

دیدۂ عالم سے ہے جلوہ نہاں
دل میں پھر یہ تابش انوار کیوں

عشق کو دنیا میں رسوا کر دیا
غم کے افشا کر دیئے اسرار کیوں

عشق ہی مذہب ہے جب قیسی ترا
کعبہ کیوں، بت خانہ کیوں، زنار کیوں
_______
 لکھنو، دسمبر 1938ء
_________________


Qaisi AlFaruqui

جمعہ، 13 جنوری، 2012

غزل : آ گئی جب سامنے حسن طلب انکار ہے

آ گئی جب سامنے حسن طلب انکار ہے
کیا کروں ساقی ترا توبہ شکن اصرار ہے

ہے عبث رنج و الم کا تذکرہ اس دہر میں
زندگی کا نام ہی پابندی افکار ہے

ایک ہے پیش ِ نظر اور دوسرا ہے دل نشیں
وہ جمال ِ یار ہے اور یہ خیال ِ یار ہے

روح تن سے جا چکی پر آنکھ اب تک ہے کھلی
بعد مردن بھی ہمیں شاید تلاش ِ یار ہے

راگنی بے وقت کی ہے چھوڑ قیسی شاعری
"دل ہی جب بیکار ہے تو شاعری بیکار ہے"
_________
بنارس، 1934ء
_________________

منگل، 10 جنوری، 2012

غزل : سب کرشمے ہیں ہماری خوبئ تقدیر کے

سب کرشمے ہیں ہماری خوبئ تقدیر کے
اس نے ٹکڑے کرکے واپس کر دیۓ تحریر کے

ان کے پیکانوں نے کیا منه توڑ پایا ہے جواب
ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے قلب و جگر میں تیر کے

دردِ دل دردِ جگر دونوں کی لذّت بڑھ گئی
کچھ جگر میں رہ گئے کچھ دل میں ٹکڑے تیر کے

اک نہ اک شہر ِخموشاں میں مکاں بنتے ہیں روز
ختم ہی ہوتے نہیں یہ سلسلے تعمیر کے

سن کے سب کہنے لگے قیسی ترا طرز ِسخن
یاد آتے ہیں زمانے میرزا و میر کے

_________
گورکھپور، جولائی 1933ء
_______________________



ہفتہ، 7 جنوری، 2012

غزل : کیا ہوا وہ دعویٰ ضبطِ الم

کیا ہوا وہ دعویٰ ضبطِ الم
شرم شرم اے چشمِ نم اے چشمِ نم

عام تھا جلوہ مگر اے چشمِ نم
گرَ رہے محروم تو بس ایک ہم

یوں پڑا ہوں کھو کے سب اپنا بھرم
جس طرح ہو راہ میں نقش ِ قدم

ہے امیدِ سیر ِ حاصل دم بہ دم
کیا عجب ہے لے ہی ڈوبے بحر ِغم

درد رہ کر میرا جاتا ہے تھم
اب تو صحت کی بھی ہے امید کم

زندگی کیا ہے یہ قیسی سے نہ پوچھ
ہیں بلائیں سیکڑوں اور ایک دم
_______
گورکھپور، مارچ 1941ء
____________________

منگل، 3 جنوری، 2012

غزل : فسردگی شوق کا نہ کھل سکا کوئی سبب

فسردگی شوق کا نہ کھل سکا کوئی سبب
نہ اب وہ صبح دلکشانہ عالم سکوتِ شب

قالِ جور و جبر کے فسانے کہہ رہی ہیں سب
کبھی یزید کی زباں کبھی سرشتِ بو لہب

کہیں غرورِ آ گہی کہیں فریبِ بے خودی
مگر مقامِ بندگی ہنوز بندگی طلب

کسی بھی حال میں کوئی جہاں میں مطمئن نہیں
کسی کو زیست کی ہوس کسی کو موت کی طلب

یہ وعظ و پند سب بجا مگر کبھی تو ناصحا
حیات جس سے جھوم اٹھے وہ چھیڑ نغمۂ طرب

بایں ہجوم رنج و غم مجسمہ ہے شکر کا
یہی ہے قیسیِ حزیں فسردہ دل شگفتہ لب
___________
گونڈہ، فروری 1959ء
______________________