شکوہ ہے کچھ
فلک سے مجھ کو نہ کچھ زمیں سے
تم سے اک
شکایت کہنی ہے وہ تمھیں سے
نظروں نے تم
کو دیکھا اس کی سزا انھیں دو
کیوں لے رہے
ہو بدلہ میرے دل ِ حزیں سے
شل پاؤں ہو
چکے ہیں دم ٹوٹنے لگا ہے
اے جان ِ
جستجو اب آواز دے کہیں سے
نغموں سے غم
کے پر ہے قیسیٌ کا ساز ِ ہستی
گونج اٹھیں گی فضائیں چھیڑا اگر کہیں سے
____________
لکھنؤ،
اکتوبر 1938ء
_________________
Qaisi AlFaruqui |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں