منگل، 10 جنوری، 2012

غزل : سب کرشمے ہیں ہماری خوبئ تقدیر کے

سب کرشمے ہیں ہماری خوبئ تقدیر کے
اس نے ٹکڑے کرکے واپس کر دیۓ تحریر کے

ان کے پیکانوں نے کیا منه توڑ پایا ہے جواب
ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے قلب و جگر میں تیر کے

دردِ دل دردِ جگر دونوں کی لذّت بڑھ گئی
کچھ جگر میں رہ گئے کچھ دل میں ٹکڑے تیر کے

اک نہ اک شہر ِخموشاں میں مکاں بنتے ہیں روز
ختم ہی ہوتے نہیں یہ سلسلے تعمیر کے

سن کے سب کہنے لگے قیسی ترا طرز ِسخن
یاد آتے ہیں زمانے میرزا و میر کے

_________
گورکھپور، جولائی 1933ء
_______________________



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں