فسردگی شوق
کا نہ کھل سکا کوئی سبب
نہ اب وہ صبح
دلکشانہ عالم سکوتِ شب
قالِ جور و
جبر کے فسانے کہہ رہی ہیں سب
کبھی یزید کی
زباں کبھی سرشتِ بو لہب
کہیں غرورِ آ
گہی کہیں فریبِ بے خودی
مگر مقامِ
بندگی ہنوز بندگی طلب
کسی بھی حال
میں کوئی جہاں میں مطمئن نہیں
کسی کو زیست
کی ہوس کسی کو موت کی طلب
یہ وعظ و پند
سب بجا مگر کبھی تو ناصحا
حیات جس سے
جھوم اٹھے وہ چھیڑ نغمۂ طرب
بایں ہجوم
رنج و غم مجسمہ ہے شکر کا
یہی ہے قیسیِ حزیں فسردہ دل شگفتہ لب
___________
گونڈہ، فروری 1959ء
______________________
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں