ہفتہ، 7 جنوری، 2012

غزل : کیا ہوا وہ دعویٰ ضبطِ الم

کیا ہوا وہ دعویٰ ضبطِ الم
شرم شرم اے چشمِ نم اے چشمِ نم

عام تھا جلوہ مگر اے چشمِ نم
گرَ رہے محروم تو بس ایک ہم

یوں پڑا ہوں کھو کے سب اپنا بھرم
جس طرح ہو راہ میں نقش ِ قدم

ہے امیدِ سیر ِ حاصل دم بہ دم
کیا عجب ہے لے ہی ڈوبے بحر ِغم

درد رہ کر میرا جاتا ہے تھم
اب تو صحت کی بھی ہے امید کم

زندگی کیا ہے یہ قیسی سے نہ پوچھ
ہیں بلائیں سیکڑوں اور ایک دم
_______
گورکھپور، مارچ 1941ء
____________________

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں