جمعہ، 30 دسمبر، 2011

غزل : جب سے غمِ جاناں کا سزاوار ہوا ہے

جب سے غمِ جاناں کا سزاوار ہوا ہے
دل عشق کی عظمت سے خبردار ہوا ہے

دل زیست سے یوں برسرِ پیکار ہوا ہے
دیوانہ ہوا ہے کبھی ہوشیار ہوا ہے

کل تک جو ہر اک داغِ جگر داغِ جگر تھا
اب تیرے کرم سے گل و گلزار ہوا ہے

ہر دور میں جس کے لئے آسان تھا مرنا
اس دور میں جینا اسے دشوار ہوا ہے

تخلیقِ چمن ہوتی ہے، اضداد سے قیسی
ہوگا نہ کبھی گلشنِ بے خار ہوا ہے
__________
گونڈہ، جولائی 1958ء
_____________________

منگل، 27 دسمبر، 2011

غزل : گلوں کے ساتھ کب شبنم نہیں ہے

گلوں کے ساتھ کب شبنم نہیں ہے
خوشی سے دور کوئی غم نہیں ہے

گلوں کی چاک دامنی مسلم
جواب گریۂ شبنم نہیں ہے

امید و وعدۂ فردا ہو کیوں کر
بناۓ زیست مستحکم نہیں ہے

خوشی کے ہیں سب ساتھی جہاں میں
مگر کوئی شریکِ غم نہیں ہے

نہ ہوں کیوں فاش رازِ حسنِ فطرت
دلِ قیسی جامِ جم نہیں ہے
_________

گونڈہ، مارچ 1958ء
______________________

ہفتہ، 24 دسمبر، 2011

غزل : وہ غم پہ مرے جب ہنستے ہیں مجھ کو یہ تسلی ہوتی ہے

وہ غم پہ مرے جب ہنستے ہیں مجھ کو یہ تسلی ہوتی ہے
گلشن کا بھی ہے دستور یہی گل ہنستے ہیں شبنم روتی ہے

سرمایۂ یادِ عہدِ حسیں تفسیرِ دلِ برباد و حزیں
لے لو اسے دامن میں اپنے یہ اشک نہیں ہیں موتی ہیں

ہے شیخ و برہمن سے شاید یہ راز ابھی تک پوشیدہ
وہ جس سے نفرت کرتے ہیں مخلوق خدا کی ہوتی ہے

وہ ہم سے خفا جب ہوتے ہیں یاد آتے ہیں بے حد ان کے کرم
غم یاد نہیں رہتے لیکن جب ان کی عنایت ہوتی ہے

جو عہدِ وفا کے لیتے ہیں تنبیہہ یہ ان کو دے قیسی
تاکید وفا کی کرنے سے تلقین ریا کی ہوتی ہے
_____________
گونڈہ، دسمبر 1957ء
________________________

بدھ، 21 دسمبر، 2011

غزل : دل ٹوٹ گئے کتنے پتھر کی چٹانوں میں

دل ٹوٹ گئے کتنے پتھر کی چٹانوں میں
آہستہ ذرا چلئے شیشے کے مکانوں میں

لیلیٰ ہے نہ محمل ہے، مجنوں ہے نہ صحرا ہے
رکھا ہی بھلا کیا ہے دیرینہ فسانوں میں

ایام کی گردش نے یہ دن بھی دکھاۓ ہیں
تالے ہیں دہانوں میں چھالے ہیں زبانوں میں

تھی فقر میں بھی پہلے اک سطوتِ شاہانہ
اک ایسا زمانہ بھی گزرا ہے زمانوں میں

جی بھر گیا دنیا سے اب حال یہ ہے قیسی
چھایا ہے اندھیرا سا شرفا کے گھرانوں میں
___________
دیوریا.28 دسمبر 1978ء
________________________

اتوار، 18 دسمبر، 2011

غزل : میں یہ کہتا ہوں کہ ہر شیریں دہن سے ڈریئے

میں یہ کہتا ہوں کہ ہر شیریں دہن سے ڈریئے
کون کہتا ہے کہ فقط سانپ کے پھن سے ڈریئے

جستجو عیش کی کرتا ہو تو تن سے ڈریئے
اپنے مالک کو بھلاتا ہو تو من سے ڈریئے

ان کو ہنگاموں پہ رونق کا گماں ہوتا ہے
اجنبی دیس میں خود اہلِ وطن سے ڈریئے

دین کا فائدہ جس میں نہ نفع دنیا کا
جو کوئی کام نہ دے ایسی زہن سے ڈریئے

کن بلاؤں میں پھنسا دے ہمیں معلوم نہیں
جو غریبوں کے نہ کام آئے تو دھن سے ڈریئے

رنگ ہی رنگ ہے نکہت کا نہیں نام و نشاں
خار تو خار ہیں گلہاۓ چمن سے ڈریئے

چاہِ یوسف سے نکلنے کی تو امید بھی ہے
جس کو کچھ تھاہ نہیں چاہِ ذقن سے ڈریئے

ہجر کی رات ہے بے چینی و بے کیفی ہے
نوک ہے خار کی بستر کے شکن سے ڈریئے

جو ہے گردش میں شب و روز ہمارے سر پر
جس کا سایہ ہے اسی چرخِ کہن سے ڈریئے

عافیت اس میں ہے، بے نام و نشاں ہی رہئے
قیسی خاک نشیں، گور و کفن سے ڈریئے
____________
دیوریا. 23 دسمبر 1978ء
__________________________


 

جمعرات، 15 دسمبر، 2011

غزل : تھا جو ازل ہی سے مکتوب

تھا جو ازل ہی سے مکتوب
ہم سے ہوا ہے کیوں منسوب

کر کے مسخر مہر و ماہ
بھول گئے تسخیرِ قلوب

عظمتِ انساں بڑھتی جائے
دیکھ سکے گر اپنے عیوب

جوشِ جنوں میں ہوش کسے ہے
کون ہے طالب کیا مطلوب

کچھ غمِ جاناں اک غمِ دوراں
شغل یہی دو ہیں محبوب

ان کی توجہ ان کا کرم ہے
میں جو ہوا ہوں یوں معتوب

قیسی طالب ہے یہ خدا سے
مجھ کو رکھے غیرالمغضوب
___________

پیر، 12 دسمبر، 2011

غزل : جو بہ فیضِ جگرنہیں ہوتی

جو بہ فیضِ جگر* نہیں ہوتی
وہ غزل معتبر نہیں ہوتی

زندگی یوں بسرنہیں ہوتی
نعمتِ غم اگر نہیں ہوتی

حسن کی قدر عشق کی معراج
منحصر دار پر نہیں ہوتی

اس کے سوزِ دروں کا حال نہ پوچھ
آنکھ بھی جس کی تر نہیں ہوتی

اب کہاں وہ غرورِ ناکامی
آہ بھی بے اثر نہیں ہوتی

ہر نفس ہے پیامِ جہد و عمل
زندگی مختصر نہیں ہوتی

خوفِ عقبٰی سے ترک ہے واعظ
چاہئے تو مگر نہیں ہوتی

وہی ہوتے ہیں باخبر قیسی
جن کو اپنی خبر نہیں ہوتی

* حضرت جگر مرادآبادی
____________

بدھ، 7 دسمبر، 2011

غزل : وہ لذتِ غم کو کیا جانے جو واقفِ صد آلام نہیں

وہ لذتِ غم کو کیا جانے جو واقفِ صد آلام نہیں
سہ جاۓ تھپیڑے ہنس ہنس کر ہر ایک کے بس کا کام نہیں

لٹتا ہے نشیمن لٹنے دے اس قید مکاں سے چھٹنے دے
دو تنکوں کی خاطر اے ہمدم تسکین نہیں آرام نہیں

گردش میں مسلسل جام بھی ہے مطرب بھی مئے گلفام بھی ہے
کیا بات ہے بزمِ ساقی میں پہلا سا ہجومِ عام نہیں

ہم تشنہ لبانِ خاک بسر زینت ہیں ترے میخانے کی
بیٹھے ہیں تو بیٹھا رہنے دے ہر چند صلائے عام نہیں

توقیر زمانے میں اپنی قیسی نہ سہی تحقیر تو ہے
ناکام سہی بدنام سہی کیا کم ہے کہ اب گمنام نہیں
 _______________

ہفتہ، 3 دسمبر، 2011

غزل : تیرا دیوانہ جدھر سے بھی گزار جاۓ ہے

تیرا دیوانہ جدھر سے بھی گزار جاۓ ہے
پھول تو پھول کانٹا بھی سنور جاۓ ہے

صاف کلیوں کا اشارہ ہے کہ لب بند رہیں
پھول کھلتا ہے تو شیرازہ بکھر جاۓ ہے

مجھ کو محسوس یہ ہوتا ہے تیری یاد کے ساتھ
قافلہ جیسے بیاباں سے گزر جاۓ ہے

غم کے ماروں کو کہاں اس کی خبر ہوتی ہے
شام کب آئے ہے کس وقت سحر جاۓ ہے

ایک پتنگے کو بھی احساس ہے خودداری کا
بے رخی شمع کی دیکھے ہے تو مر جاۓ ہے

جانے کس منھ سے کدورت کے سیہ داغ لئے
ماہ و انجم کی فضاؤں میں بشر جاۓ ہے

برق گرتی ہے نشیمن کی مجھے فکر نہیں
ہاں مگر سبزہ و غنچہ پہ نظر جاۓ ہے

یوں خطاکار زمانے میں بہت ہیں قیسی
سارا الزام مگر میرے ہی سر جاۓ ہے
____________
فیض آباد. جون 1970ء
________________________