پیر، 12 نومبر، 2012

جب بھی سوچا ہے کہ پھیلاؤں میں اپنا دامن

جب بھی سوچا ہے کہ پھیلاؤں میں اپنا دامن
ایک شعلہ سا لپکتا تہِ داماں دیکھا

راس آئ ہے نہ آئے گی کبھی جرأت شوق
میں نے ہر گل کو یہاں خار بداماں دیکھا

آہ اک سرد بھری سوچ کے انجامِ بہار
میں نے جب صحنِ چمن میں گلِ خنداں دیکھا
_________
جون پور. دسمبر 1963ء
___________________________

Qaisi Al Faruqui
 

پیر، 15 اکتوبر، 2012

غزل : جب کسی کا نہ آسرا کرتے

جب کسی کا نہ آسرا کرتے
سجدہٴ شکر ہم ادا کرتے

لب ہلانے کی تاب بھی تو نہیں
کس طرح عرض مدعا کرتے

جب یہ بیگانگی کا عالم ہے
چپ نہ رہتے تو اور کیا کرتے

صبر بھی کرکے دیکھئے کچھ دن
عمر گزری ہے التجا کرتے

کیا خبر تھی کہ یہ اثر ہوگا
کاش ہم آہِ نارسا کرتے

جان و دل تو نثارِ درد کئے
اور کیا درد کی دوا کرتے

خاک پائے وصی سے ہم قیسیٌ
دل کے آئینے کی جلا کرتے
_________
جون پور. دسمبر 1963ء
_____________________

Urdu Poetry by Mohammad Shamsul Huda Faruqui
A Ghazal by Qaisi AlFaruqui
 

پیر، 1 اکتوبر، 2012

غزل : بجا کہ اپنے زمانے کا ہے وہی منصور

بجا کہ اپنے زمانے کا ہے وہی منصور
نگاہِ عشق نے بخشا جسے دماغِ غیور

جو ہاتھ آئے تو کیوں کر متاعِ کیف و سرور
کہ زندگی ہے ابھی سوزوسازِعشق سے دور

نہ کر حیاتِ دو روزہ پہ ناز اے مجبور
کہ راہ دیکھ رہی ہیں قدم قدم پہ قبور

نہ رنج آبلہ پائی نہ آرزوئے سکوں
ہے رہروانِ رہِ عشق کا یہی دستور

جبینِ شوق کو سجدوں کا کیف کافی ہے
یہ بندگی نہیں میری براۓ حور و قصور

چلو ہٹو بھی مسرت کا مجھ سے نام نہ لو
کہ پا رہا ہوں مصائب کی زندگی میں سرور

ہماری آبلہ پائی سے ہٹ سکے جو نظر
تو دیکھ دیدہ و دل پر برس رہا ہے جو نور

روش روش پہ چمن میں ہزار خار سہی
سنبھل کے آپ نہ چلئے تو آپ ہی کا قصور

نہ پوچھ حال غریب الوطن کا اے ہمدم
چمن سے دور عزیزوں کی انجمن سے دور

مرے لئے وہی حاصل ہیں دین و دنیا کی
وہ ساعتیں جو گزاری ہیں میں نے تیرے حضور

گزر رہے ہیں شب و روز اس طرح قیسیٌ
نہ زندگی کا سلیقہ نہ عاقبت کا شعور
_________
مین پوری. اپریل 1968ء
______________________

A Ghazal by Qaisi AlFaruqui
 

جمعہ، 21 ستمبر، 2012

غزل : نامرادی ہے اب تو عینِ حیات

نامرادی ہے اب تو عینِ حیات
کیوں اٹھائیں کسی کے احسانات

روح تن سے جدا ہوئی لیکن
زندگی سے کسے ملے ہے نجات

دام اپنا سمیٹ لے صیاد
پاؤں پکڑے ہوئے ہیں خود حالات

کم نہیں یہ بھی فیضِ موسمِ گل
جیب و دامن سے مل گئی ہے نجات

خیر گزری کھ بچ گیا دامن
آکے آنکھوں میں رک گئی برسات

زندگی تاب و تپش کے دن
موت تاروں بھری حسیں اک رات

ہوں اسیرِ بلا مگر قیسیٌ
کیا رہائی ہے اپنے بس کی بات
_________
پورن پور. مئی 1961ء
____________________

Qaisi AlFaruqui
A Ghazal by Qaisi AlFaruqui
 

منگل، 26 جون، 2012

قطعہ

غم کی دنیا میں گر کبھی قیسیٌ
شادمانی کا نام آیا ہے

میں نے سمجھا ہے کوئی راہی ہے
صبح بھولا تھا شام آیا ہے
_________
جون پور. جنوری 1962ء
______________________

Qaisi Al Faruqui Poetry
Qataa by Qaisi Al Faruqui
ڈپٹی کلکٹری کی خبر سن کر عارف عباسی مرحوم کی فرمائش پر

منگل، 12 جون، 2012

غزل : جہاں نہ کچھ بنا سکیں خرد کی ساری حکمتیں

جہاں نہ کچھ بنا سکیں خرد کی ساری حکمتیں
وہاں پہ کام آ گئیں خرد کی چند وحشتیں

کبھی نہ کر سکا کوئی بشر کی پست ہمتیں
نہ پستیاں زمین کی نہ آسماں کی رفعتیں

نہ کاوشیں نہ خواہشیں نہ جستجو نہ حسرتیں
کسی کی واسطہ چھٹے گذر چکی ہیں مدتیں

قیامتیں ہوں حسن کی کہ عشق کی سیاستیں
کوئی بھی نام دیجئے ہیں دل کی سب حکایتیں

بشر کے کشت و خون سے زمین لالہ زار ہے
انھیں یہ دھن کہ جیت لیں فلک کی ساری رفعتیں

ان اہل ِ عقل پر اگر نہ روۓ قیسیٌ کیا کرے
نظر میں جن کے آج ہیں فقط خلا کی وسعتیں
_________
پورن پور. اپریل 1961ء
___________________ 
Click to Enlarge
Mohammad Shamsul Huda Qaisi AlFaruqui Poetry

جمعرات، 31 مئی، 2012

غزل : تھا جو ازل ہی سے مکتوب

تھا جو ازل ہی سے مکتوب
ہم سے ہوا ہے سب منسوب

جوش ِ جنوں میں ہوش ہے کب
کون ہے طالب کیا مطلوب

فکر ِ معاش و عشق ِ بتاں
شغل یہی دو ہیں محبوب

ان کی توجہ ان کا کرم ہے
میں جو ہوا ہوں یوں محتوب

کرکے مسخر مہر و ماہ
بھول گیا تسخیر قلوب

عظمتِ انساں بڑھتی جائے
دیکھ سکے گر اپنے عیوب

قیسیٌ طالب ہے یا رب
رکھ مجھ کو غیرالمغضوب
_________
پورن پور. جون 1960ء
___________________
 
Azal by Qaisi AlFaruqui
 

اتوار، 13 مئی، 2012

غزل : جب کلی کوئی مسکرائی ہے

جب کلی کوئی مسکرائی ہے
آنکھ بے ساختہ بھر آئی ہے

ہم ہیں انسان کیوں خطا نہ کریں
جدِّ اعلٰی سے خو یہ پائی ہے

کتنے غنچوں کے دل ہوئے ہیں خوں
جب چمن میں بہار آئی ہے

دور حاضر کے دور رس انساں
تونے دنیا نئی بسائی ہے

بستیاں آج بھی اندھیری ہیں
چاند تک گو تری رسائی ہے

اس ترقی کے دور میں قیسیٌ
مردنی کیوں دلوں پہ چھائی ہے
_________
پورن پور. نومبر 1959ء
________________

Kalaam e Qaisi Al Faruqui

منگل، 1 مئی، 2012

غزل : خلوص عشق کی جب دل میں روشنی نہ رہی

خلوص عشق کی جب دل میں روشنی نہ رہی
تو کیا گلہ ہے کہ پرکیف زندگی نہ رہی

اب التفات کے قابل یہ زندگی نہ رہی
کہ آدمی تو رہے قدر آدمی نہ رہی

سزا جزا کی قائل ہو وہ عبادت تو
خطا معاف تجارت ہے بندگی نہ رہی

فسردہ گل ہیں تو غنچے بھی مضمحل سے ہیں
چمن رہا بھی تو کیا جب وہ دلکشی نہ رہی

سنائیے غم ِ دوراں کے نو بہ نو قصے
فسانۂ غم ِ جاناں میں دلکشی نہ رہی

دل فسردہ کچھ اس طرح سے مٹا قیسیٌ
کہ غم بھی غم نہ رہا اور خوشی خوشی نہ رہی
_________
مودها. جنوری 1955ء
______________
 
Qaisi Al Faruqui Poetry
 

بدھ، 18 اپریل، 2012

غزل : اس شوخ سے ہے دل کو امید کرم ابھی

اس شوخ سے ہے دل کو امید کرم ابھی
سمجھے نہیں فریبِ تمنا کو ہم ابھی

اک سعئی رائگاں ہے یہ ضبطِ الم ابھی
آنکھیں تو خشک ہو گئیں دامن ہے نم ابھی

محتاج و مستعار ہے گل کی شگفتگی
کیا جانتے ہیں گریۂ شبنم کو ہم ابھی

پیر ِ مغاں نہ روک نگاہوں کا فیض ِ عام
ہونا ہر ایک جام کو ہے جام ِ جم ابھی

اہل ِ خرد کو کھو بھی چکے اعتبار ِ عشق
باقی ہے کچھ تو اہل ِ جنوں کا بھرم ابھی

اک سوگوار ِ زیست کو جینے کی آرزو
شاید ہے تشنہ لب مرا ذوق ِ الم ابھی

کچھ اور چاہئے ستم التفات دوست
قیسی غم ِ حیات کی تلخی ہے کم ابھی
_________
رسڑا. جولائی 1952ء
_________________

Shamsul Huda Qaisi Faruqui
 

منگل، 3 اپریل، 2012

کشش عصیاں کی اور اپنی بھی نادانی نہیں جاتی

کشش عصیاں کی اور اپنی بھی نادانی نہیں جاتی
کسی صورت سے بھی یہ خوۓ انسانی نہیں جاتی

وہی ہم تھے کہ فرقِ پاک پر تھا نورِ سبحانی
وہی ہم ہیں کہ اب صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

ہجومِ یاس و حرماں بھی ہے لاکھوں حسرتیں بھی ہیں
مگر پھر بھی ہمارے دل کی ویرانی نہیں جاتی
_________
مودها، ہمیرپور. جولائی 1953ء
________________

Qaisi AlFaruqui
 

ہفتہ، 17 مارچ، 2012

غزل : پیش ِ نگاہ جیسے ترا آستاں رہے

پیش ِ نگاہ جیسے ترا آستاں رہے
اس کی نظر میں پست نہ کیوں آسماں رہے

ہم یوں رہین ِ منتِ برق ِ تپاں رہے
گرتی ہے گھوم پھر کے نشیمن جہاں رہے

زیر زمیں ہے چین نہ زیر فلک سکوں
مجھ کو کوئی بتاۓ کہ کوئی کہاں رہے

بھڑکا دی آگ اور بھی گلہاۓ سرخ نے
گلشن میں بھی رہے تو ہم آتش بجاں رہے

اب وہ غرور ناز نہ خودداری ِ نیاز
پردے وہ اٹھ گئے جو کبھی درمیاں رہے

آنکھوں نے اس طرح سے اڑائی ہے دل کی بات
جیسے کوئی کسی کا بڑا رازداں رہے

مجھ سے رخ ِ حبیب کی سنجیدگی نہ پوچھ
وہ مہرباں ہوئے بھی تو ہم بدگماں رہے

جوہر کی قدر تھی کبھی تھے حق شناس لوگ
حالات اب وہ دہر کے قیسیٌ کہاں رہے
_________
رسرا. مئی 1952ء
______________
Qaisi Faruqui

ہفتہ، 10 مارچ، 2012

غزل : ترک الفت تو ہو نہیں سکتی

ترک الفت تو ہو نہیں سکتی
یہ قیامت تو ہو نہیں سکتی

ان سے قربت تو ہو نہیں سکتی
ایسی قسمت تو ہو نہیں سکتی

تشنگی خون سے بجھا لینا
آدمیت تو ہو نہیں سکتی

گر متاع ِ جہاں بھی کوئی دے
دل کی قیمت تو ہو نہیں سکتی

ان کو حق ہے کرم کریں کہ ستم
کچھ شکایت تو ہو نہیں سکتی

تیرے رنگیں تصورات بغیر
دل کی زینت تو ہو نہیں سکتی

پائیں ہم عشق و موت پر قابو
ایسی قدرت تو ہو نہیں سکتی

اہل ِ دنیا کے روبرو قیسیٌ
ہم سے منت تو ہو نہیں سکتی
 _________
دیوریا. جون 1948ء
____________________

Ghazal by Qaisi AlFaruqui

ہفتہ، 3 مارچ، 2012

غزل : دو تنکے ہیں باقی انھیں برباد کئے جا

دو تنکے ہیں باقی انھیں برباد کئے جا
اور اتنا کرم اے مرے صیاد کئے جا

جو کچھ بھی ادھر سے ہو کرم ہو کہ ستم ہو
تو شکر ہمیشہ دل ناشاد کئے جا

آئینۂ دل کو مرے اے جان ِ دو عالم
اک جلوہ گہِ حسن ِ خداداد کئے جا

دنیاۓ محبت میں ترا نام بڑا ہے
کچھ طرز ِ ستم اور بھی ایجاد کئے جا

دنیا تجھے کیا کہتی ہے کر فکر نہ قیسیٌ
کرتا ہے جسے یاد اسے یاد کئے جا
_________
گورکھپور. دسمبر 1940ء
___________________

Ghazal by Qaisi AlFaruqui

 

منگل، 28 فروری، 2012

غزل : وہ حادثاتِ زمانہ کی تاب لا نہ سکا

وہ حادثاتِ زمانہ کی تاب لا نہ سکا
خوشی و غم میں برابر جو مسکرا نہ سکا

زمانہ پیس کے رکھ دے گا ایک پل میں اسے
غم و الم کا گراں بار جو اٹھا نہ سکا

ہے جسم زیر زمیں روح مائل پرواز
یہ آسماں کبھی نیچا مجھے دکھا نہ سکا

بجز تحیر و وحشت کے کچھ نہ ہاتھ آیا
میں دور جا نہ سکا اور پاس آ نہ سکا

زمانہ تیری محبت کا ہو گیا قائل
بس ایک تمھیں کو میں اپنا کبھی بنا نہ سکا

وہ پوچھتے تھے محبت ہے کیا بلا قیسیٌ
زباں پہ آ کے رکی بات میں بتا نہ سکا
_________
دیوریا. جون 1948ء
____________________
 
Ghazal by Qaisi AlFaruqui
 

جمعرات، 23 فروری، 2012

غزل : یہ انقلاب عجب کیا جو ایک بار آئے

یہ انقلاب عجب کیا جو ایک بار آئے
کہ دل کے اجڑے ہوئے باغ میں بہار آئے

ہمارے دل ہی میں موجود تھا نہ سمجھے ہم
تمام دیر و حرم جسے پکار آئے

اٹھا کے پھینک دو جام و صراحی و مینا
میں چاہتا ہوں مجھے بے پئے خمار آئے

وفا کا نام یقیناً ڈبو دیا اس نے
جو جاکے کوچہ سے اس کے ذلیل و خوار آئے

وفا پرستی کا دعویٰ بجا سہی قیسیٌ
مگر یہ شرط ہے اس کو بھی اعتبار آئے
_________
دیوریا. نومبر 1947ء
_______________


Qaisi AlFaruqui